عالم اسلام کے ایک بہت بڑے عالم سیّد جمال الدین افغانی نے انیسویں صدی
کے آخر میں ''پین اسلام ازم (عالم اسلام کا اتحاد) کا نعرہ لگایا۔ ترکی کے
سلطان عبدالحمید خان ثانی نے اس کی سرپرستی کی۔ بعد میں پہلی عالمی
جنگ کے دوران بھی یہی نعرہ ترکوں کا جنگی نعرہ بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ
عالم اسلام کو متحد کرنے کا خیال جنوبی ہند کی ایک چھوٹی سی اسلامی
ریاست کے فرمانروا کو اس نعرے کے مقبول ہونے سے سو برس پہلے آچکا
تھا کہ عالم اسلام کو متحد کرکے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جائے۔ اس نے
اس سلسلے میں ترکی کے سلطان سلیم ثٹالٹ سے خط و کتابت کی اور اس
سلسلے میں سفارت بھی بھیجی کہ بصرہ کی بندرگاہ سے ترکی اپنا بحری بیڑہ
خلیج فارس کے راستے سے جنوبی ہند بھیجے۔ اس نے افغانستان کے فرمانروا
زمان شاہ کو لکھا کہ وہ اس کی مدد کو آئے۔ زمان شاہ اس کی مدد کیلئے
افغانستان سے چل کر پنجاب پہنچا تھا کہ کسی وجہ سے اسے واپس جانا پڑاء
اس نے ایران کے فرمانروا سے بھی خط و کتابت جاری رکھی کہ دونوں
ممالک میں خیر سگالی کے تعلقات قائم ہوں۔ پھر فرانس کے حکمران نپولین
بوناپارٹ کے پاس سفارت بھیجی کہ وہ اس کی مدد کیلئے فوج بھیجے تاکہ
انگریزوں کو ہند سے بے دخل کیا جاسکے۔ پین اسلام ازم کا خیال سیّد جمال
الدین افغانی سے سو برس پہلے میسور کے حکمران سلطان فتج علی ٹیپو کے
دل میں آیا تھا۔ اس لحاظ سے بلاشبہ ٹیپو سلطان کو بین اسلام ازم کے نظریئے
کا بانی کہا جاسکتا ہے۔
ٹیپو سلطان 10.نومبر 1750ء بمطابق 20۔ذوالحجہ 1163ھ کو جمعہ کے دن
بنگلور سے 20میل شمال میں دن دیون ہلی کے مقام پر پیدا ہوئے۔ اس مقام کا
نام بعد میں انہوں نے یوسف آباد رکھا۔ میسور کے نواب حیدر علی خان نے
نرینہ اولاد کی آرزو میں ارکاٹ کے ایک مشہور بزرگ ٹیپو مستان کے مزار
پر حاضر ہوکر دعا کی تھی۔ اللہ تعالی نے بیٹا دیا تو اس کا نام ٹیپو سلطان
ر کھا۔
ٹیپو سلطان اچھے باپ کا اچھا بیٹا تھا۔ اس کی بہترین تربیت کی گئی۔ وہ اپنے
باپ کی طرح پکا حریت پسند تھا۔ اس نے باپ کے ساتھ کئی مہمات میں حصہ
لیا۔ وہ جانتا تھا کہ انگریز اسے چین سے بیٹھنے نہ دیں گے۔ انگریزوں نے
مرہٹوں اور نظام دکن کے ساتھ سازباز کررکھی تھی۔ ٹیپو نے انگریزوں سے
نبردآزما ہونے کے سلسلے میں ترکی, ایران افغانستان اور فرانس کے
حکمرانوں سے خط و کتابت کی لیکن انگریزوں نے سازشوں کے ذریعے
ترکی کو روس سے لڑایاء افغانستان اور ایران میں خانہ جنگی کرا دی اور پھر
بدقسمتی سے نپولین بونا پارٹ دریانے نیل کی لڑائی (1[6٤0 116)) میں
ہار گیا۔
ادھر ہندوستان میں انگریز ٹیپو سے مقابلے کیلئے بڑھے۔ سلطنت میسور کے
دارالحکومت سرنگاپٹم کا محاصرہ ہوا۔ آخرکار صلح کرنی پڑی۔ آدھی سلطنت
انگریزوں کے حوالے کی اور تین کروڑ تیس لاکھ تاوان ادا کرنا پڑا۔
برطانوی حکومت نے لارڈ ویلز لے کو برصغیر کے مفتوحہ انگریزی علاقے
کا نگراں بنا کر بھیجا۔ اس نے ””عہد معاونت“' متعارف کروایا۔ ویلز لے
دراصل اس ”'عہد معاونت'ٴ کا موجد نہیں تھا لیکن اس نے بڑی تعداد میں
ہندوستان کے ریاستی حکمرانوں کے ساتھ اس قسم کے معاہدے کئے جس سے
کمپنی کی سلطنت کو فائدہ پہنچا۔ اس لئے یہ پالیسی اسی کے نام سے موسوم
کی جاتی ہے۔ ””عہد معاونت'' کی اہم شرائط یہ تھیں:
(1)ریاست انگریزوں کی مرضی کے خلاف کسی دوسری ریاست سے خارجی
تعلقات قائم نہیں کرسکتی۔ مثلا صلح۔ تجارت وغیرہ۔
(2)ریاست پر ایک انگریز ریذیڈنٹ رکھا جائے گا۔
(3)انگریز فوج کا ایک دستہ رکھنا ہوگا۔ اس کے اخراجات ریاست برداشت
کرے گی۔
(4)انگریزوں کے علاوہ دیگر یورپی اقوام (بالخصوص فرانس) کے افراد کو
نہیں رکھا جانے گا
(5)ریاست کے اندرونی معاملات میں کمپنی دخل نہیں دے گی۔
(6)ان تمام شرائط کے عوض کمپنی ریاست کو بیرونی اور مقامی بغاوتوں سے
نمٹنے میں مدد دے گی۔
ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے پیش کردہ ””عہد معاونت'' کو قبول کرنے سے
انکار کردیا۔ انگریز فوجیں بمبئ اور مدراس سے میسور کی طرف بڑھیں۔
ایک مرتبہ پھر سرنگاپتم کا محاصرہ ہوا۔ جنرل بیرس نے قلعہ پر گولہ باری
شروع کرا دی۔ سلطانی افواج نے گولہ باری کا مستعدی سے جواب دیاء مگر
سلطانی وزراء غداری کی قسم کھائے بیٹھے تھے۔ اُنہوں نے گولہ بارود میں
مٹی اور سن ملوا دیا۔ لہٰذا وہ اثرانداز نہ ہوسکی۔ غدار اپنا کام پورا کرچکے
تھے۔ ان میں میر صادقء غلام علی لنگڑا اور پورنیما قابل ذکر ہیں۔ انگریز
فوجیں جب سرنگاپتم میں داخل ہوئیں تو ان غداروں میں سے کسی نے ٹیپو
سے کہا۔ <٭”حضور! اطاعت قبول کرلیجئے ریاست بھی بچ جاۓ گی اور آپ
کا تخت و تاج بھی قائم رہے گا۔'' اس پر سلطان نے خشم آلود ہوکر جو جواب
دیاء وہ ہمیشہ تاریخ کے اوراق پر سنہرے قول کے طور پر جگمگاتا رہے
گا۔ انہوں نے کہا۔
شیر کی ایک دن کی زندگی
گیدڑ کی سو سالہ زندگی سےبہتر ہے
اور بہادری سے لڑتے ہوۓ 4۔مئی 1799ء کو اپنی جان ””جان آفریں؛: کے
سپرد کردی۔ ٹیپو سلطان کی دو بیویاں اور بارہ بیٹے تھے جو حراست میں لے
لیے گئے۔
Comments
Post a Comment