Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2020

Princess Of Hope

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے    ساحل لسبیلہ و مکران کے کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر اور اورماڑہ کے  درمیان واقع ہے۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ بلوچستان صوبہ کا ایک قدرتی اور عجوبہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ کنڈ ملیر سے شروع ہونے والے پہاڑی سلسلے؛ جسے بُذی لک کہا جاتا ہے کے درمیان میں ایک کٹا پھٹا پہاڑ ہے جسے صدیوں کے آندھی, طوفان اور بارشوں کے بہائو نے ایسی شکل دے دی تھی ۔  2002 میں ہولی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے دیکھ کر اسے پرنسیس آف ہوپ یعنی ”'امید کی شہزادی'ٴ اس کا نام رکھا اور اس عجوبہ نےپوری دنیا میں شہرت حاصل کرلی۔ یہ جس خطے میں واقع ہے یہاں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سے پہلے اس خطے کو ارما بیل کہا جاتا تھا۔ سکندراعظم کی فوج کا ایک حصہ 325 قبل مسیح میں ایران کو واپس جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تھا۔  اس کے عقب میں دریائے ہنگول کے کنارے ہندوؤں کا قدیم ترین مندر ہے جونانی ہنگلاج یا بنگلاج ماتا کے نام سے موسوم ہے۔ اس مندر میں قدیم دور میں بحری و بری راستے سے یہاں اپنی عبادت کے لئے رجوع ہوتے تھے اور آج بھی یہاں مندر میں عبادت کے لئے رجوع ہوتے ہیں۔ ا

Umer Khayam

عمر خیام کے بارے میں کچھ معلومات ہیں جن میں تھوڑا تضاد ملتا ہے اگر آپ گوگل  کرے تو کچھ اسطرح کی تحریر سامنے آتی ہے  عمر خیام ایک فارسی کے ریاضی دان ، ماہر فلکیات ، فلسفی ، اور شاعر تھے۔ وہ شمال مشرقی ایران کے شہر نشابور میں پیدا ہوا تھا ، اور اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس عرصے میں کارخانیڈ اور سلجوق حکمرانوں کے دربار کے قریب گزارا جس میں پہلی صلیبی جنگ کا مشاہدہ ہوا تھا۔ اور کچھ معلومات اس طرح کی ملتی ہے  عمر خیام کا اصل نام غیاث الدین ابو الفتح عمر بن ابراہیم خیام تھا۔ ان کے نام کے ساتھ خیام کا لقب لگنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے والد ابراہیم پیشے کے لحاظ سے خیمہ دوز تھے لیکن عمر خیام نے تمام عمر میں ایک دن بھی خیمہ دوزی نہیں کی بلکہ محض کسرنفسی اور اپنے والد کی شہرت عام کی بنا پر انہوں نے خیام تخلص اختیار کیا۔ عمر خیام کس سن میں پیدا ہوۓ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن تحقیقات سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ  عمرخیام چوتھی صدی ہجری کے عشرے اوّل (10ھ  بمطابق 1019ء) میں نیشا پور (ایران) میں پیدا ہوے لیکن بیشتر مغربی مورخین عام طور پر ان کی تاریخ پیدائش 18۔مئی 1018ء قرار دی

Muhammad Ali

٢٠ ویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں جن ہستیوں نے عالمی شہرت حاصل کی۔ ان میں امرپکی شہری کاسینس کلےکو نظر انداز کرنا ممکن نہیں: جس نے کھیل کے میدان میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور محمد علی کے نام سے شہرت پائی۔ وہ افریقی نژاد عیسائ تھے۔ کہا جتا ہے کہ کاسیس کلے کو جب معلوم ہوا کہ اس کے اباؤں اجداد مسلمان تھے تو اس نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔  وہ4 ء میں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تنظیم ”نیشن آف اسلام'' میں شامل ہوگئے اور محمد علی کا اسلامی نام اختیار کر لیا۔  (تاہم 1975ء میں انہوں نے اس تنظیم اور اس کے مخصوص عقائد سے علیحدگی اختیار کر لی)  امریکی حکومت کو محمد علی کا قبول اسلام ایک آنکھ نہ بھایا۔ مختلف حربوں سے انہیں پریشان کرنا شروع کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ محمد علی کے مذہب تبدیل کر لینے کا نتیجہ تھا۔ امریکی حکومت نے انہیں جنگ میں حصہ لینے کیلئے ویت نام بھیجنے کا منصوبہ بنایا لیکن محمد علی نے أُصولی طور پر جنگ ویت نام کا محالف ہونے کی بنا پر انکار کر دیا۔   نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا: مقدمہ چلا اور نہ صرف انہیں باکسنگ چیمپئن شپ ٹاٹل سے محروم کر دیا گیا بلکہ ان کا با

Tipu Sultan

عالم اسلام کے ایک بہت بڑے عالم سیّد جمال الدین افغانی نے انیسویں صدی کے آخر میں ''پین اسلام ازم (عالم اسلام کا اتحاد) کا نعرہ لگایا۔ ترکی کے سلطان عبدالحمید خان ثانی نے اس کی سرپرستی کی۔ بعد میں پہلی عالمی جنگ کے دوران بھی یہی نعرہ ترکوں کا جنگی نعرہ بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کو متحد کرنے کا خیال جنوبی ہند کی ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کے فرمانروا کو اس نعرے کے مقبول ہونے سے سو برس پہلے آچکا تھا کہ عالم اسلام کو متحد کرکے طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کیا جائے۔ اس نے اس سلسلے میں ترکی کے سلطان سلیم ثٹالٹ سے خط و کتابت کی اور اس سلسلے میں سفارت بھی بھیجی کہ بصرہ کی بندرگاہ سے ترکی اپنا بحری بیڑہ خلیج فارس کے راستے سے جنوبی ہند بھیجے۔ اس نے افغانستان کے فرمانروا زمان شاہ کو لکھا کہ وہ اس کی مدد کو آئے۔ زمان شاہ اس کی مدد کیلئے افغانستان سے چل کر پنجاب پہنچا تھا کہ کسی وجہ سے اسے واپس جانا پڑاء اس نے ایران کے فرمانروا سے بھی خط و کتابت جاری رکھی کہ دونوں ممالک میں خیر سگالی کے تعلقات قائم ہوں۔ پھر فرانس کے حکمران نپولین بوناپارٹ کے پاس سفارت بھیجی کہ وہ اس کی مدد کیلئے فوج بھیجے

Muslims Khilafah Movement of India

پہلی جنگ عظیم  کے بعد ترکوں کی حمایت میں حکومت برطانیہ کے خلاف مسلمانان ہند کی تحریک خلافت تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ معاہدہ وارسا کے بعد اتحادیوں نے ترکی سے سیورے کے مقام پر ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کی شرائط بہت سخت تھیں۔  برطانیہ اور فرانس نے ترکی کے حصے بخرے کرلئے تھے۔ رولٹ ایکٹ نے لوگوں میں پہلے ہی ہیجان برپا کر رکھا تھا۔ معاہدہ سیورے نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ مسلمانان ہند بےحد بر انگیختہ ہوۓ  اور خلافت عثمانیہ کو متحد و یکجان دیکھنے کی تحریک پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ اس تحریک میں مولانا محمد علی مولانا شوکت علی مولانا ظفر علی خان مولانا ابوالکلام آزادء حکیم اجمل خان: ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور مولانا حسرت موہانی وغیرہ جیسے اکابرین شریک تھے۔  تحریک خلافت نے تمام مسلمانوں کو نہ صرف متحد بلکہ پر جوش بنا دیا۔  اس زمانے میں نیشنل کانگریس نے حکومت برطانیہ کے خلاف تحریک ترک موالات شروع کی۔ مسلمان اور ہندو اور تمام دوسری قومیں کانگریس کے پرچم تلے متحد و منظم ہوگئیں۔ خلافت اور ترک موالات کی دونوں تحریکیں ہم آبنگ ہوگئیں۔  مسلمانوں ن

Star Wars Swords Became A Reality

اسٹار وارتلوارحقیقت کا روپ دھار گئیں   ایک مشہور یوٹیوبر اور انجینئر نے اسٹار وار فلم میں استعمال ہونے والی مشہور تلوار ”لائٹ سیب رٴ تیار کرلی ہے۔ فلم میں یہ تلوار بٹن دبانے پر لمبی ہوجاتی ہے اور اس کا اگلا روشن سرا ایک مکمل تلوار میں ڈھل جاتا ہے۔ وقت پڑنے پر اسے بند کرکے رکھا جاسکتا ہے۔ اب کینیڈا کے انجینئر جیمز بابسن نے دنیا کی پہلی لائٹ سیبر بنائی ہے۔ ان کے یوٹیوب پر ”دی بیک اسمتھٴ نامی چینل میں سائنس فکشن فلموں کی ایجادات کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جس پر ماہرین کی پوری ٹیم کام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سبسکرائبر کی تعداد ایک کروڑ سے بھی زائد ہے۔  لائٹ سیبر میں پلازمہ ورژن بنایا گیا ہے  جس کے لیے پشت پر ایک ٹینک پہننا پڑتا ہے جس میں پروپین گیس بھری ہے۔ یہ گیس ایک پلازمہ شعلہ پیدا کرتی ہے جو بڑھ کر تلوار کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ لیکن اس کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہے یعنی 4000 درجہ سینٹی گریڈ کے لگ بھگ ہے۔ اسے دنیا کی پہلی پھیلنے والی لانٹ سیبر کا نام دیا گیا ہے جو عین اسٹار وار کی تلوار کی طرح کام کرتی ہے۔ یعنی بٹن دباتے بی بڑی ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے آتشیں گیس کا سیلن

East India Company

East India Company  East India Company ایسٹ انڈیا کمپنی سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے دوران مغربی یورپ میں تشکیل پانے والے متعدد تجارتی اداروں میں سے ایک تھی۔ کم و بیش حکومتی معاونت رکھنے والی کمپنیاں واسکوڈے گاما کے تاریخ ساز بحری سفر (1497ء) کے بعد وجود میں آئیں۔ اہم ترین کمپنیوں کو اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سےچارٹرملے جن میں انہیں مقدور بھر علاقہ حاصل کرنے اور وہاں حکومتی امور چلانے کی اجازت دی گئی۔ بشمول قوائین؛ کرنسی کا اجراء؛ معاہدے۔ جنگ اور انصاف۔ مشہور ترین کمپنیاں ڈنمارک: فرانس: بر طانیہ اور ڈچ کی تھیں۔ 1616ء اور 1634ء میں ایسٹ انڈیا تجارت میں حصہ حاصل کرنے کی دو ناکام کوششوں کے بعد 1729ء میں ڈنمارک کے بادشاہ فریترک چہارم نے کمپنی چارٹر کی۔ برطانیہ اور ڈنمارک کے درمیان جنگ میں ٹینئش بحری طاقت کی تبابی کے نتیجے میں ڈینش کمپنی کی طاقت ختم ہوگئی۔  انڈیا میں اس کی املاک (تامل ناڈو میں ترانکوبار اور بنگال میں سیرامپور) 1845ء میں برطانیہ نے خرید لیں۔ برٹش ایست انڈیا کمپنی ہندوستان کی تاریخ میں کوئی دو سو سال تک ایک اہم قوت کے طور پر موجود رہی۔ اصل چارٹر ملکہ ایلزبتھ نے 31دسمبر 1600ء

Airdropping Sensors From Drones and Insects

یونیورسٹی آف واشنگٹن کےسائنس دانوں نے مختلف کاموں کے لیے انتہائی   چھوٹے اور کروزن سینسربناۓ ہیں  ‎  جو کسی بھی اڑنے والے کیڑے یا پھر کھلونا ڈرون پر رکھ کر ماحول میں گرائے جاسکتے ہیں۔ یہ سینسر ماحولیاتی تحقیق اور سائنسی تفتیش کا کام کر سکتے ہیں۔ ایسے سینسر کی بدولت ہوا میں آلودگی سے لے کردیگر معاملات کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کیڑے یاڈرون کے ذریعے سینسر کو پھینکنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت بلکے پھلکے اورمؤثرہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سینسر کا وزن 90 سے 100 ملی گرام کے درمیان ہے دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سینسر کو خاص وقت پر گرانے کے لیے گرا دو' کی بدایات دینا بہت ضروری ہے۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ سینسر کو گرنے کےبعد محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ مقررہ وقت تک کام کرتے ہوئے ڈیٹا جمع کرتا رہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ سینسر کو تمام ضروری مراحل سے گزارا گیا ہے۔ جہاں تک سینسر کا سوال ہے تو اس کا وزن ایک تتلی کے دسویں حصے کے بر اہر ہے سینسر کو چھوٹے ڈرون یا کیڑے پر رکھا جاسکتا ہے۔ سینسر کو ایک مقناطیسی پن اور کوائل سے دبا کر رکھا جاتا ہے۔ اسے گرانے کے لیے بلوتوت سے پیغام دیا جتا ہے۔ وائرلیس ہدای