یوں تو ہم نے بہت سارے القابات سنے ہیں جیسے آغا،اعظم صدیق مگر آج نام پاشا جسکوں کئی بار سنا ہے اس کے بارے میں جانتے ہے پاشاء ترکی کا سب سے بڑا اعزازی لقب تھا جو بیسویں صدی تک مستقل رہا یہ لقب فوجیوں کیلئے مخصوص تھا تاہم کبھی کبھی اعلی سرکاری عہدیدارو کو بھی ملتا تھا۔ پہلے تیرہویں صدی عیسوی میں استعمال ہوا عورتوں کو بھی ملا۔ تیرہویں صدی کے آخر میں رئیسوں کے ناموں کے ساتھ پاشا کا لفظ پڑ ھایا گیا۔ ان رئیسوں نے ایشیائے کوچک میں چھوٹی چھوٹی موروثی ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔ پاشا کا لقب ابتدا ہی سے ارباب سیاست ہی کو دیا جاتا تھا۔ کچھ عرصے بعد پاشا کا لقب دو منصب داروں یعنی صوبے کے امیرالامراء اور پاۓ تخت کے وزراء کیلیے استعمال ہونے لگا۔ پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ پاشا کا اطلاق خصوصیت کے ساتھ بڑے وزیر پر کیا جانے لگا۔ سلطان سلیم کی سلطنت میں یورپ: ایشیا اور افریقہ کی چھبیس ولایتیں شامل تھیں۔ یہ ولایتیں ایک سو تریستھ علاقوں پر منقسم تھیں جنہیں لوا (صوبہ) کہتے تھے۔ ہر ولایت کا حاکم ایک پاشا ہوتا جسے ٭٭سہ اسپ دمہ“ نشان عطا ہوتا۔ ایسے پاشا کا منصب ایک وزیر کے منصب کے برابر ہوتا۔ بالعموم پشا
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساحل لسبیلہ و مکران کے کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر اور اورماڑہ کے درمیان واقع ہے۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ بلوچستان صوبہ کا ایک قدرتی اور عجوبہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ کنڈ ملیر سے شروع ہونے والے پہاڑی سلسلے؛ جسے بُذی لک کہا جاتا ہے کے درمیان میں ایک کٹا پھٹا پہاڑ ہے جسے صدیوں کے آندھی, طوفان اور بارشوں کے بہائو نے ایسی شکل دے دی تھی ۔ 2002 میں ہولی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے دیکھ کر اسے پرنسیس آف ہوپ یعنی ”'امید کی شہزادی'ٴ اس کا نام رکھا اور اس عجوبہ نےپوری دنیا میں شہرت حاصل کرلی۔ یہ جس خطے میں واقع ہے یہاں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سے پہلے اس خطے کو ارما بیل کہا جاتا تھا۔ سکندراعظم کی فوج کا ایک حصہ 325 قبل مسیح میں ایران کو واپس جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تھا۔ اس کے عقب میں دریائے ہنگول کے کنارے ہندوؤں کا قدیم ترین مندر ہے جونانی ہنگلاج یا بنگلاج ماتا کے نام سے موسوم ہے۔ اس مندر میں قدیم دور میں بحری و بری راستے سے یہاں اپنی عبادت کے لئے رجوع ہوتے تھے اور آج بھی یہاں مندر میں عبادت کے لئے رجوع ہوتے ہیں۔ ا