Skip to main content

Umer Khayam

عمر خیام کے بارے میں کچھ معلومات ہیں جن میں تھوڑا تضاد ملتا ہے اگر آپ گوگل کرے تو کچھ اسطرح کی تحریر سامنے آتی ہے 


عمر خیام ایک فارسی کے ریاضی دان ، ماہر فلکیات ، فلسفی ، اور شاعر تھے۔ وہ شمال مشرقی ایران کے شہر نشابور میں پیدا ہوا تھا ، اور اس نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس عرصے میں کارخانیڈ اور سلجوق حکمرانوں کے دربار کے قریب گزارا جس میں پہلی صلیبی جنگ کا مشاہدہ ہوا تھا۔

اور کچھ معلومات اس طرح کی ملتی ہے 


عمر خیام کا اصل نام غیاث الدین ابو الفتح عمر بن ابراہیم خیام تھا۔ ان کے نام
کے ساتھ خیام کا لقب لگنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے والد ابراہیم پیشے کے لحاظ سے خیمہ دوز تھے لیکن عمر خیام نے تمام عمر میں ایک دن بھی خیمہ دوزی نہیں کی بلکہ محض کسرنفسی اور اپنے
والد کی شہرت عام کی بنا پر انہوں نے خیام تخلص اختیار کیا۔ عمر خیام کس سن میں پیدا ہوۓ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن تحقیقات سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ 


عمرخیام چوتھی صدی ہجری کے عشرے اوّل (10ھ 
بمطابق 1019ء) میں نیشا پور (ایران) میں پیدا ہوے
لیکن بیشتر مغربی مورخین عام طور پر ان کی تاریخ پیدائش 18۔مئی 1018ء قرار دیتے ہیں۔ مشہور مسلم مفکر نظام الملک طوسی نے (جو سلجوقی سلطنت
کے وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے)

عمر خیام اور حسن بن صباح کو اپنا
”ہم عصر“ لکھا ہے۔ بعض مورخین یہ بھی لکھتے ہیں کہ عمر خیام: نظام الملک طوسی اور حسن
بن صباح ہم مکتب ۲611097 1888)) تھے۔ انہوں نے امام موافق کی درسگاہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ بھی کہا جات ہے کہ ان تینوں دوستوں نے یہ طے
کیا تھا کہ ہم میں سے جو بھی اعلیٰ 

عہدے پر فائز ہوگا وہ دوسروں کا خیال
کرے گا۔ چنانچہ جب نظام الملک طوسی٠ سلجوقی سلطنت کے وزیراعظم بنے تو عمرخیام کو ان کا وعدہ یاد آیا اور وہ جاکر ان سے ملے۔ طوسی ان کے
ساتھ کمال تعظیم سے پیش آئے۔ جب عمر خیام کو نظام الملک طوسی کی فیاضی کے سبب معاش کی طرف سے اطمینان ہوگیا تو وہ نیشاپور جاکر علمی تحقیقات میں مصروف ہوگئے اور کتب ”'جبر و مقابلہ'' اور ”'علم
المساحت و الکعبات'' لکھیں۔ ان کتابوں کے باعث خراسان میں انہیں ' ”بو علی سینا ٹانی“' سمجھا جانے لگا۔

 نظام الملک طوسی نے عمر خیام کے فضل و
کمال کا تذکرہ سطان ملک شاہ سلجوقی (عہد اقتدار 1072ء تا 1092ء) سے کیا تو بادشاہ نے عمر خیام کو طلب کرلیا اور ان کے کئی بڑے پیمانے پر اصلاح تقویم (008ء31') کا دفتر قائم کیا گیا۔ سن عیسوی کی موجودہ تقویم یعنی جدید
کلینڈر کا بانی عمر خیام کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ اہل یورپ عمر خیام کو مشرق کا والتیئر“' بھی قرار دیتے ہیں۔ بعض مغربی محققین کے مطابق جدید یورپ کے اکثر فلسفیوں کے خیالات و نظریات عمر خیام کے فلسفے سے ماخوذ ہیں۔

مورخین اور تذکرہ نویس اس پر متفق ہیں کہ عمرخیام اپنے زمانے کا نہایت قابل اور جیّد ادیب و فلسفی؛ نجومی ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھا لیکن آٹھ سو برس تک ان کے نام کو جس نے زندہ رکھا۔ وہ اس کی شاعری ہے۔ اگرچہ عمر خیام کی شاعری رباعیات تک محدود ہے لیکن اسلوب بیان کی جدت:
قوت تخیل: طرز استدلال: شوخی و ظرافت اور فلسفیانہ طرز تکلم کے سے  عمر خیام کو نہایت اعلی درجے کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔
 ان کی رباعیات کی تعداد ایک ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ انڈیا ہاوس لندنء نیشنل لائبریری پیرس۔ ایشیکک سوسایٹی کلکتہ اور اورینٹئل پبلک لائبریری بانکے پور کے
قدیم کتب خانوں میں عمر خیام کی رباعیات کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ نقّادوں کا کہنا بے کہ عمرخیام کی رباعیات سے اس کے عقائد پر استدلال کرنا غلط ہے کیونکہ شاعری کے پردے میں معلوم نہیں شاعر کیا کچھ کہہ جاتا ہے۔
خیام کو بعض لوگ علحد اور زندیق کہتے ہیں 

جبکہ اس کے بر عکس بعض
لوگوں کے نزدیک وہ طبقہ صوفیاء میں شامل ہے۔ عمر خیام کے عقائد و اعمال کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بڑی وجہ غالباً ان کی رباعیات میں ساقی اور شراب کی مداحی و تحسین ہے لیکن بیشتر ناقدین کے مطابق در حقیقت یہ ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں کیونکہ کہا 
جاتا ہے کہ مشرقی شاعری کا تو خمیر ہی شراب سے کشید ہوا ہے لہذا اس کی رباعیات بھی شراب کے ذکر
سے خالی نہیں تاہم گہرائی میں اتر کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دراصل ان رباعیات میں فلسفے کے بڑے بڑے رموز و اسرار بیان کئے گئے ہیں۔ یوں تو ایران میں ہزاروں نامور شاعر گزرے ہیں لیکن فلسفیانہ خیالات کے
لحاظ سے عمرخیام کا طرز سب سے نرالا ہے۔ اس کے ہر مصرعے میں حکمت و فلسفہ بھرا ہوا ہے خصوصا نظام 
عالمہ اسرار کائنات اور وجودہتی
کے نکات کو عمرخیام بڑے اچھے پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ عام شعراء کی تقلید میں عمرخیام نے غزل اور قصیدے میں اپنی عمر برباد نہیں کی بلکہ اپنے مفید خیالات کے اظہار کیلیے اصناف شعر میں سے صرف رباعی کو
منتخب کیا کیونکہ بڑے بڑے مطالب جس ترکیب اور ترتیب سے رباعی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ کسی دوسری صنف میں ممکن نہیں۔ عمر خیام
نے 4۔دسمبر 1131ء کو نیشاپور میں وفات پائی۔
 

Comments

Popular posts from this blog

Intehaii Kamyab Logo Ki Adat

کامیاب لوگ ذہنی طور پر مضبوط رہنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ وہ بلاجواز تنقید کو ان کی خودمختاری اور اعتماد کو خراب کرنے نہیں دیتے۔ صرف ایک قسم کی تنقید وہ قبول کرتے ہیں ایک تعمیری۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کو احسن طریقے سے کیسے لیا جائے اور اسے اپنے فائدے میں استعمال کریں۔ کامیاب لوگ اپنے جذبات اور احساسات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کامیاب افراد اپنے جذبات کو دبانے کے بجائے ، معمول کے مطابق اپنے جذبات کا سراغ لگاتے اور ان کا نظم و نسق کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی کے جذبات اور احساسات اس کے سوچنے اور عمل کرنے پر کس حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ احساس کرتے ہوئے ، کامیابی ایک سے اپنے جذبات کو روکنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کامیاب لوگ خود ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب معاملات اپنے راستے پر نہیں چل پاتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ مہربان ہونے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ اس سے انھیں سخت داخلی نقاد کو خاموش کرنے میں مدد ملتی ہے جو ان کی حوصلہ افزائی ، طاقت اور قوت خوانی کا آخری آونس لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ کامیاب لوگ اس سے زیادہ کاٹتے نہیں ہیں جو وہ چبا سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح اپنی حدود کو صحیح طریق

Princess Of Hope

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے    ساحل لسبیلہ و مکران کے کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر اور اورماڑہ کے  درمیان واقع ہے۔ یہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے جنوب میں واقع ہے۔ یہ بلوچستان صوبہ کا ایک قدرتی اور عجوبہ کہے جانے کا مستحق ہے۔ کنڈ ملیر سے شروع ہونے والے پہاڑی سلسلے؛ جسے بُذی لک کہا جاتا ہے کے درمیان میں ایک کٹا پھٹا پہاڑ ہے جسے صدیوں کے آندھی, طوفان اور بارشوں کے بہائو نے ایسی شکل دے دی تھی ۔  2002 میں ہولی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے دیکھ کر اسے پرنسیس آف ہوپ یعنی ”'امید کی شہزادی'ٴ اس کا نام رکھا اور اس عجوبہ نےپوری دنیا میں شہرت حاصل کرلی۔ یہ جس خطے میں واقع ہے یہاں کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ محمد بن قاسم کی فتح سے پہلے اس خطے کو ارما بیل کہا جاتا تھا۔ سکندراعظم کی فوج کا ایک حصہ 325 قبل مسیح میں ایران کو واپس جاتے ہوئے یہاں سے گزرا تھا۔  اس کے عقب میں دریائے ہنگول کے کنارے ہندوؤں کا قدیم ترین مندر ہے جونانی ہنگلاج یا بنگلاج ماتا کے نام سے موسوم ہے۔ اس مندر میں قدیم دور میں بحری و بری راستے سے یہاں اپنی عبادت کے لئے رجوع ہوتے تھے اور آج بھی یہاں مندر میں عبادت کے لئے رجوع ہوتے ہیں۔ ا

Aik Parinda Aisa Bhi Hai

ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﯽ ﻋﺠﺐ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﮔﻮﻟﮉﻥ ﭘﻠﻮﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ .  ﯾﮧ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺍﻻﺳﮑﺎ ﺳﮯ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﺗﮏ 4000 ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭘﺮﻭﺍﺯ 88 ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ,ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﺗﺎ . ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺰﯾﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﺗﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ .ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺴﺘﺎﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ . ﺟﺐ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﻔﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ88 ﮔﺮﺍﻡ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ‏( fat ‏) ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ .ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺍﯾﻨﺪﮬﻦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 70 ﮔﺮﺍﻡ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ .ﺍﺏ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﺮﻧﺪﮦ 800 ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﮐﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ . ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ, ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺷﺸﺪﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ . ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ v ﮐﯽ ﺷﯿﭗ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور اپنی پوزیشن چینج کرتے رہتے ہیی,ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﺭﮔﮍ ﮐﺎ ﮐﻢ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻨﺴﺒﺖ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ . ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ %23 ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ , ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ 6. ﯾﺎ 7 ﮔﺮﺍﻡ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﯾﺰﺭﻭ ﻓﯿﻮﻝ