Skip to main content

Posts

East India Company

East India Company  East India Company ایسٹ انڈیا کمپنی سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے دوران مغربی یورپ میں تشکیل پانے والے متعدد تجارتی اداروں میں سے ایک تھی۔ کم و بیش حکومتی معاونت رکھنے والی کمپنیاں واسکوڈے گاما کے تاریخ ساز بحری سفر (1497ء) کے بعد وجود میں آئیں۔ اہم ترین کمپنیوں کو اپنی اپنی حکومتوں کی جانب سےچارٹرملے جن میں انہیں مقدور بھر علاقہ حاصل کرنے اور وہاں حکومتی امور چلانے کی اجازت دی گئی۔ بشمول قوائین؛ کرنسی کا اجراء؛ معاہدے۔ جنگ اور انصاف۔ مشہور ترین کمپنیاں ڈنمارک: فرانس: بر طانیہ اور ڈچ کی تھیں۔ 1616ء اور 1634ء میں ایسٹ انڈیا تجارت میں حصہ حاصل کرنے کی دو ناکام کوششوں کے بعد 1729ء میں ڈنمارک کے بادشاہ فریترک چہارم نے کمپنی چارٹر کی۔ برطانیہ اور ڈنمارک کے درمیان جنگ میں ٹینئش بحری طاقت کی تبابی کے نتیجے میں ڈینش کمپنی کی طاقت ختم ہوگئی۔  انڈیا میں اس کی املاک (تامل ناڈو میں ترانکوبار اور بنگال میں سیرامپور) 1845ء میں برطانیہ نے خرید لیں۔ برٹش ایست انڈیا کمپنی ہندوستان کی تاریخ میں کوئی دو سو سال تک ایک اہم قوت کے طور پر موجود رہی۔ اصل چارٹر ملکہ ایلزبتھ نے 31دسمبر 1600ء

Airdropping Sensors From Drones and Insects

یونیورسٹی آف واشنگٹن کےسائنس دانوں نے مختلف کاموں کے لیے انتہائی   چھوٹے اور کروزن سینسربناۓ ہیں  ‎  جو کسی بھی اڑنے والے کیڑے یا پھر کھلونا ڈرون پر رکھ کر ماحول میں گرائے جاسکتے ہیں۔ یہ سینسر ماحولیاتی تحقیق اور سائنسی تفتیش کا کام کر سکتے ہیں۔ ایسے سینسر کی بدولت ہوا میں آلودگی سے لے کردیگر معاملات کو نوٹ کیا جاسکتا ہے۔ کسی کیڑے یاڈرون کے ذریعے سینسر کو پھینکنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت بلکے پھلکے اورمؤثرہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سینسر کا وزن 90 سے 100 ملی گرام کے درمیان ہے دوسرا چیلنج یہ ہے کہ سینسر کو خاص وقت پر گرانے کے لیے گرا دو' کی بدایات دینا بہت ضروری ہے۔ تیسری مشکل یہ ہے کہ سینسر کو گرنے کےبعد محفوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ مقررہ وقت تک کام کرتے ہوئے ڈیٹا جمع کرتا رہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ سینسر کو تمام ضروری مراحل سے گزارا گیا ہے۔ جہاں تک سینسر کا سوال ہے تو اس کا وزن ایک تتلی کے دسویں حصے کے بر اہر ہے سینسر کو چھوٹے ڈرون یا کیڑے پر رکھا جاسکتا ہے۔ سینسر کو ایک مقناطیسی پن اور کوائل سے دبا کر رکھا جاتا ہے۔ اسے گرانے کے لیے بلوتوت سے پیغام دیا جتا ہے۔ وائرلیس ہدای

Robots Instead of Humans

انسانوں کی جگہ روبوٹس  ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) کی جانب سے حال بی میں شائع کی جانے والی تازہ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگلے  پانچ سال میں 8 کروڑ 50 لاکھ انسان مزدوروں کی جگہ روبوٹ مزدور لے لیں گے۔ رپورٹ کے مطابق عالمی فورم کی جانب سے دنیا بھر کے 300 بڑے اداروں اور کمپنیوں میں کیے جانے والے سروے سے پتا چلا کہ بر 5 میں سے 4 ادارے اپنے کام کو ڈیجیٹلائز کرنے کے خواہاں ہیں۔  یعنی ہر پانچ میں سے 4 اداروں کی خواہش ہے کہ بیماریوں اور دیگر آفتوں کی وجہ سے انسان مزدروں پر اکتفا کرنے کے بجائے روبوٹ کی خدمات حاصل کریں۔ عالمی اکنامک فورم کے مطابق کورونا کی وبا سے قبل 2007 ء اور 2008 ء کے معاشی بحران کے بعد ہی کمپنیوں نے انسانوں کے بجائے روبوٹس اور مشینوں سے کام لینا شروع کردیا تھا۔ تابم کورونا کے بعد کام کی نوعیت تبدیل ہونے کے بعد اگلے 5 سال یعنی 5ء تک دنیا بھر میں 8 کروڑ 50 لاکھ انسانوں کی جگہ روبوٹ یا مشینیں لے لیں گی۔  جن شعبوں میں انسانوں کی جگہ روبوٹ یا مشینیں لے لیں گی؛ ان میں ڈیٹا انٹری آپریٹرء ایڈمنسٹریٹو سیکریٹریزء اکاؤنٹس اینڈ آڈٹ: کسٹمر سروس ورکرزء آپریشنل منیجر اور اسٹاک

5G Service In Pakistan

5G  دنیا فورجی کے بعد اب تیزترین رفتار رکھنی والی انٹرنیٹ سروس 'فائیو جیٴ پر منتقل ہو رہی ہے جس کے لیے موبائل کمپنیوں نے فائیو جی فونز بھی مار کیٹ میں پھیلا دیئے ہیں تاہم پاکستان میں اب تک تیز ترین انٹرنیٹ سروس کے لیے خاطرخواہ کام نہیں کیا گیا ہے۔  وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے بتایا کہ حکومت فائیو جی ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے تیزی کے ساتھ کوششیں کر رہی ہے اور دسمبر 2021 ء تک فائیو جی سروس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹیلی کام کمپنی زونگ“ کے ساتھ مل کر اسلام آباد کے ایک اسپتال میں فائیو جی سروس کا ٹرائل بھی کیا جائے گا۔ اس سے قبل اسلام آبادء کراچی اور گوادر کو فائبر آپٹکس سے منسلک کرنے پر کام مکمل کرنا ہوگا جس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی جائے گی۔  وفاقی وزیر برائے آئی ٹی نے مزید بتایا کہ ان کی وزارت نے ملک میں فائیو جی اسپیکٹرم کی بولی کے لیے پالیسی کمیٹی بنائی ہے جس میں تمام موبائل کمپنیوں کے علاوہ فریکوئنسی ایلوکیشن ہورڈ کے نمائندے بھ

Google Task Mate

Google گوگل کی جانب سے ایک نئی ایپ ”'ٹاسک میٹ“ متعارف کرائی جارہی ہے جس سے لوگ عام کام جیسے دکانوں کی سامنے سے  تصاویر کھینچ کر یا مختصر ویڈیو کلپس کے ذریعے پیسے کماسکیں گے۔ اس وقت یہ ایپ صرف بھارت میں صارفین کے لیے لائیو ہے اور اس کا حصہ بننے کے لیے انوی ٹیشن کوڈ درکار ہوگاء جس کے بعد ہی ٹاسکس پر کام ہوسکے گا۔ اس سے قبل ایک ایپ گوگل اوپینین ریورڈرز بھی پیش کی گئی تھی جس میں گوگل کی مصنوعات یا ایسے مقامات کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے جہاں وہ جاچکے ہوں جس کے عوض پلے اسٹور کریڈٹ فراہم کیا جاتا۔  مگر اس نئی ایپ میں کریڈٹ کی بجائے اصل رقم ادا کی جائے گی۔ ””ٹاسک میٹ“ میں ٹاسکس کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہےء ایک بیٹھ کر کرنے والے کام جیسے جملے ریکارڈ کرنا اور چلتے پھرتے کیے جانے والے کام جیسے تصاویر لینا۔ اس کے عوض صارفین کو مقامی کرنسی میں ادائیگی کی جائے گی۔ یہ تو واضح نہیں کہ گوگل ان ٹاسکس کو کن مقاصد کے لیے استعمال کرے گاء مگر گوگل کی جانب سے اس ڈیٹا کو سرچ؛ لہجے کے آہنگ اور امیج شناخت کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک بار ٹاسک مکمل کرنے پر صارف کو اسے ایک تھرڈ پارٹی پیمن

Payment through WhatsApp

بھارت میں واٹس ایپ کے ذریعے رقم کی ادائیگی کی نئی سروس متعارف کرا دی گئی ہے جس کے ذریعے نہ صرف أن لائن شاپنگ میں مدد ملے گی بلکہ کوئی بھی شخص کسی دوسرے فرد یا ادارے کو الیکٹرانک ادائیگی کرسکے گا۔ فیس بک کی ملکیت واٹس ایپ ایپلی کیشن نے اس سروس کا آغاز کر دیا ہے۔  فیس بک نے اس حوالے سے ایک بلاگ پوسٹ میں آگاہ کیا ہے کہ اسے پیمنٹ سروس شروع کرنے کے لیے باقاعدہ منظوری مل چکی ہے۔ بھارت واٹس ایپ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں اس کے40 کروڑ سے زیادہ صارفین ہیں۔ واٹس ایپ کی جانب سے بھارت میں اپنی پیمنٹ سروس کی منظوری کی درخواست مقامی ریگولیٹری اتھارٹی کے سامنے کافی عرصے سے زیر التوا تھی اور اس دوران بھی تقریباً دو سال سے واٹس ایپ ”'پیئر ٹو ‎“SU ly‏ پی ٹو پی پیمنٹ کی سروس مخصوص نیٹ ورکس کے ذریعے اپنے محدود صارفین کو فراہم کر رہا تھا۔ پی ٹو پی پیمنٹ سے مراد ایک فرد سے دوسرے فرد کو فوری ادائیگی ہے خواہ وہ شخص دنیا میں کہیں بھی موجود ہو۔ یہ ادائیگی الیکٹرانک طریقۂ کار سے ہوٹی ہے جسے الیکٹرانک منی ٹرانسفر بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت میں واٹس ایپ پیمنٹس سروس 10 علاقائی زبانوں کے  واٹس ایپ ورژن کے ذریعے دست

Maa Aik Azeem Hasti

ماں  ماں ایک ایسی ہستی ہے، جو تقریا ہرگهر میں موجود بوتی ہے۔ جو گهر اس ہستی سے محروم بو، وہ گهر قبرستان ہوتا ہے لیکن بم اکثر اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ حالات مختلف ہوتے ہیں مگر ماں کے جذبات وہی ہوتے ہیں، جو ازلی ہیں۔ اتنی صدیاں گزر جانئے کے ہاوجود ماں کی اولاد کے لئےاٹوٹ.چابت میں تبدیلی نہیں آئی۔ ماں دنیا کے کسی ہھی خطے سے تعلق رکهتی ہو خواه وه مشرقی بو یا مغربی، اپنی اولاد پر جان نچھاور کرتی ہے. کبھی آپ نے سوچا کہ تین حروف پر مشتمل لفظ ماں" خود میں کیا کچھ سموئےہوۓ ہے  م سے محبت: جس کا مقابلہ دنیا کی کونی طافت نہیں کرسکتی۔  الف سے ارمان: جو اپنی او لاد کے بارے میں اپنے دل میں بسائے رکھتی ہے۔  ن سے نور:جو اولاد کے لئے زندگی کے بر موڑ پر مشعل راه ثابت ہوتا ہے۔  لذا ماں کی محبت کو کبھی نظر انداز مت کریں، اس کی محبت کا جواب محبت سے دیں۔ اس کے ارمانوں کا خون ہرگز نہ کریں بلکہ ویسے بنیں، جیسا وه چابتی بے، زندگی میں اسی کے نور کی روشنی میں چلیں۔ کیونکہ مائیں ایسی ہستی ہے ، جو کہھی اپنی اولاد کا برا نہیں چابتی، وه اپنی اولاد کی بهلانی کی ہر ازیت سے گزر جاتی ہیں  https://www.pinterest.com/